EN हिंदी
دلوں میں خاک سی اڑتی ہے کیا نہ جانے کیا | شیح شیری
dilon mein KHak si uDti hai kya na jaane kya

غزل

دلوں میں خاک سی اڑتی ہے کیا نہ جانے کیا

راجیندر منچندا بانی

;

دلوں میں خاک سی اڑتی ہے کیا نہ جانے کیا
تلاش کرتی ہے پل پل ہوا نہ جانے کیا

ذرا سا کان لگا کے کبھی سنو گئے رات
کہیں سے آتی ہے گم صم صدا نہ جانے کیا

مسافروں کے دلوں میں عجب خزانے تھے
زیاں سفر تھا مگر راستہ نہ جانے کیا

وہ کہہ رہا تھا نہ جھانکوں گا آج صبح اس میں
مجھے دکھائے یہی آئینہ نہ جانے کیا

دعا کے پھول کی خوشبو سا پھیلنے والا
وہ خود میں ڈھونڈھتا تھا گمشدہ نہ جانے کیا

نہیں ہے کس کی نظر میں افق کوئی نہ کوئی
اس آنکھ میں تھی کوئی شے جدا نہ جانے کیا

تمام شہر میں گاڑھے دھویں کا منظر ہے
لکھا ہوا تھا یہاں جا بہ جا نہ جانے کیا

وہی بچھڑتے دلوں کی فضائے اشک آلود
وہی سفر کہ پرانا نیا نہ جانے کیا

نکل گیا ہے خلاؤں کی سمت اے بانیؔ
نواح جاں سے گزرتا ہوا نہ جانے کیا