دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے
لبوں پر تلخیوں کا زہر بگڑے ذائقوں سے ہے
جو اجڑا شہر خوابوں کا تو اپنی بھی اڑی ہے گرد
کسی سوکھے ہوئے دریا کی صورت مدتوں سے ہے
یہ کالی رات کا دریا بہا کر لے گیا سورج
ہراساں صبح کے ساحل پہ دل تاریکیوں سے ہے
مہکتے پھول بھی ڈسنے لگے ہیں سانپ کی صورت
فضا باغوں کے اندر بھی دلوں کے موسموں سے ہے
انہیں لمحوں کی آہٹ سے ملیں بیداریاں مجھ کو
مرے دریا کی جولانی سمے کے پانیوں سے ہے
وہ آنچ آنے لگی خود سے کہ دل ڈرنے لگا اپنا
جہنم روح کا بھڑکا ہوا خاموشیوں سے ہے
کھلیں آنکھیں تو سل نور میں ڈوبا ہوا پایا
مرے سورج کی تابانی نظر کے شعبدوں سے ہے
ندیمؔ اس راہ میں صدیوں کی دیواریں بھی حائل ہیں
نئی دنیا ابھی تک اوٹ میں ان ظلمتوں سے ہے

غزل
دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے
صلاح الدین ندیم