دلوں میں فرق ہے تو گفتگو سے کچھ نہیں ہوگا
چل اٹھ تشنہ لبی جام و سبو سے کچھ نہیں ہوگا
نہ پوری ہو سکی جو آرزو اب تک وہ کہتی ہے
جو پوری ہو گئی اس آرزو سے کچھ نہیں ہوگا
میاں جب اتنے سارے دوستوں سے کچھ نہیں بگڑا
ہمیں معلوم ہے اب اک عدو سے کچھ نہیں ہوگا
گریباں خارجیت اور وحشت داخلیت ہے
لہٰذا خارجیت کے رفو سے کچھ نہیں ہوگا
تفنن کے لیے نام و نمو کی دوڑ میں ہیں ہم
ہمیں معلوم ہے نام و نمو سے کچھ نہیں ہوگا
شجاعؔ تیرے ہی تحت اللفظ سے کچھ ہو تو ہو ورنہ
غزل میں شاعران خوش گلو سے کچھ نہیں ہوگا
غزل
دلوں میں فرق ہے تو گفتگو سے کچھ نہیں ہوگا
شجاع خاور