دلوں میں درد ہی اتنا کشید رکھا ہے
کہ آنکھ آنکھ نے آنسو کشید رکھا ہے
قتال ظلم و تشدد فساد آگ دھواں
ہمارے شہر میں اب کیا مزید رکھا ہے
نہ جس سے حل مسائل کی راہ نکلے کوئی
اسی کا نام تو گفت و شنید رکھا ہے
اڑی ہے جب سے پرندوں کی واپسی کی خبر
ہر ایک شخص نے پنجرہ خرید رکھا ہے
بتا رہے ہیں تصورؔ یہ شہر کے حالات
کسی کی پشت پہ دست یزید رکھا ہے
غزل
دلوں میں درد ہی اتنا کشید رکھا ہے
یعقوب تصور