دلوں کی راہ پر آخر غبار سا کیوں ہے
تھکا تھکا مری منزل کا راستا کیوں ہے
سوال کر دیا تشنہ لبی نے ساغر سے
مری طلب سے ترا اتنا فاصلہ کیوں ہے
جو دور دور نہیں کوئی دل کی راہوں پر
تو اس مریض میں جینے کا حوصلہ کیوں ہے
کہانیوں کی گزر گاہ پر بھی نیند نہیں
یہ رات کیسی ہے یہ درد جاگتا کیوں ہے
اگر تبسم غنچہ کی بات اڑی تھی یوں ہی
ہزار رنگ میں ڈوبی ہوئی ہوا کیوں ہے
غزل
دلوں کی راہ پر آخر غبار سا کیوں ہے
راہی معصوم رضا