دلوں کے درد جگا خواہشوں کے خواب سجا
بلا کشان نظر کے لیے سراب سجا
مہک رہا ہے کسی کا بدن سر مہتاب
مرے خیال کی ٹہنی پہ کیا گلاب سجا
کوئی کہیں تو سنے تیرے عرض حال کا حبس
ہوا کی رحل پہ آواز کی کتاب سجا
وہ کیا طلب تھی ترے جسم کے اجالے کی
میں بجھ گیا تو مرا خانۂ خراب سجا
تمام شب تھا ترا ہجر تیرا آئینہ گر
تمام شب مرے پہلو میں آفتاب سجا
نہ تو ہے اور نہ میں ہوں نہ وصل ہے نہ فراق
سجا شراب سجا جا بجا شراب سجا
عطاؔ یہ آنکھ دھنک منزلوں کی چاہ میں تھی
چھٹا جو ابر گھنی تیرگی کا باب سجا
غزل
دلوں کے درد جگا خواہشوں کے خواب سجا
عطا شاد