EN हिंदी
دلوں کا سوز ترے روئے بے نقاب کی آنچ | شیح شیری
dilon ka soz tere ru-e-be-naqab ki aanch

غزل

دلوں کا سوز ترے روئے بے نقاب کی آنچ

فراق گورکھپوری

;

دلوں کا سوز ترے روئے بے نقاب کی آنچ
تمام گرمئ محفل ترے شباب کی آنچ

ثواب خلد بریں کیا عذاب دوزخ کیا
ترے خطاب کی ٹھنڈک ترے عتاب کی آنچ

حریم عشق کے پردوں سے لو نکلتی ہے
یہ سوز و ساز ہے کس نغمۂ رباب کی آنچ

لہکتے سبزے میں ابر بہار کی مستی
دہکتے پھول میں چھلکی ہوئی شراب کی آنچ

یہ کیف حسن یہ برق نگاہ کیا کہنا
لگا دے آگ نہ اس دامن سحاب کی آنچ

چڑھا کے ساغر مے جگمگا اٹھے چہرے
سمٹ کے آ گئی سینوں میں آفتاب کی آنچ

پناہ مانگ رہی ہے ہری بھری دنیا
نہ پوچھ آہ دل خانماں خراب کی آنچ

یہ اگلے وقتوں کے ہیں خوش ہیں باغ جنت میں
انہیں خبر ہی نہیں کیا ہے اس ثواب کی آنچ

یہ آ گیا ہے یہاں کون کافر معصوم
کہ ٹھنڈی پڑ گئی دوزخ کے بھی عذاب کی آنچ

جسے سمجھتے ہیں سب موج کوثر و تسنیم
وہ آئنہ بھی ہے تپتے ہوئے سراب کی آنچ

سحر کی تازہ دمی چڑھتی دھوپ کی گرمی
تری نگاہ کی ٹھنڈک ترے شباب کی آنچ

رکی رکی سی لب شوق پر ہے عرض وصال
کہ پھونک دے نہ ترے ذوق انتخاب کی آنچ

یہی ہے رونق گرمی یہی ہے رونق بزم
نگاہ ناز ترے ذوق انتخاب کی آنچ

یہ رات آگ لگا دے کہیں نہ دنیا میں
یہ چاندنی یہ ہوائیں یہ ماہتاب کی آنچ

شعاعیں پھوٹ کے جیسے فضا میں گم ہو جائیں
چھلکتے جام میں یہ چشمک حباب کی آنچ

سوار ابلق ایام موسم گل ہے
چمن کے شعلے ہیں یا حلقۂ رکاب کی آنچ

یہ مہر و ماہ بھی اڑتے ہوئے شرارے ہیں
کہ عرش تک ہے محبت کے پیچ و تاب کی آنچ

سمیٹ رکھے ہیں روح القدس نے پر اپنے
پہنچ رہی ہے کہاں تک اس اضطراب کی آنچ

فراقؔ وقت کے رخ سے الٹ رہی ہے نقاب
زمیں سے تا بہ فلک ہے اس انقلاب کی آنچ