دل کشی نام کو بھی عالم امکاں میں نہیں
اپنے مطلب کا کوئی پھول گلستاں میں نہیں
وعدۂ وصل پہ کھنچتا ہوا ہاں کا لہجہ
ایک انداز ہے کہنے کا ترے ہاں میں نہیں
آپ کہتے ہیں کہ تقدیر کی گردش میں رہے
مانتا ہوں کہ یہ دل گیسوئے پیچاں میں نہیں
بس کسی کا نہیں صیاد خطا کیا تیری
آب و دانہ مری قسمت کا گلستاں میں نہیں
خاک ہونے سے بنا چشم فلک کا سرمہ
خاکساری جو نہیں خاک بھی انساں میں نہیں
نقش توحید ہے ہر نقش جبین سجدہ
کہیں کعبے کا تو پتھر در جاناں میں نہیں
پہلے ہی لوٹ تھا پروانہ تری محفل پر
اب یہ سنتے ہیں کہ بلبل بھی گلستاں میں نہیں
پاک بازی کی طرف جب سے جھکے ہیں کیفیؔ
بادہ نوشی کا مزا محفل رنداں میں نہیں
غزل
دل کشی نام کو بھی عالم امکاں میں نہیں
چندر بھان کیفی دہلوی