دل دار دل اس طرح بہم آئے نظر میں
جس طرح گہر آب میں اور آب گہر میں
اک بار بھی دیکھا نہ اسے پاس سے جا کر
آیا ہی نظر وہ تو کہیں راہ گزر میں
ہر چند کہ ہے شام و سحر وہ ہی پر اس بن
وہ لطف نہ اب شام میں ہے اور نہ سحر میں
قسمت سے مدد چاہتا ہوں اتنی کہ ہر وقت
مانند صبا ساتھ رہوں اس کے سفر میں
اک بار تو نالے کی ہو رخصت ہمیں صیاد
پنہاں رکھیں ہم کب تئیں فریاد جگر میں
ہوش و خرد و صبر و تواں اٹھ چلے اک ایک
جاتے ہی ترے چال پڑی دل کے نگر میں
کیدھر کو نکل جاویں حسنؔ کیا کریں ہم آہ
باہر ہی یہ دل اپنا نہ لگتا ہے نہ گھر میں
غزل
دل دار دل اس طرح بہم آئے نظر میں
میر حسن