دلاسا دے وگرنہ آنکھ کو گریہ پکڑ لے گا
ترے جاتے ہی پھر مجھ کو غم دنیا پکڑ لے گا
سفر گو واپسی کا ہے مگر تو ساتھ رہ میرے
مجھے یہ خوف ہے مجھ کو مرا سایہ پکڑ لے گا
تو اپنے دل ہی دل میں بس مجھے آواز دیتا رہ
سماعت کو مری ورنہ یہ سناٹا پکڑ لے گا
نکلنا گھر سے باہر بھی علامت ہے تصادم کی
جسے تنہائی چھوڑے گی اسے خطرہ پکڑ لے گا
مرے کھوئے ہوئے لمحے کہیں سے ڈھونڈ کر لا دو
مگر ہشیار رہنا پاؤں کو رستہ پکڑ لے گا
اگر میں لوٹ جاؤں عشق سے پہلے کے عالم میں
تو اس کے قرب سے گزرا ہوا لمحہ پکڑ لے گا
تو خود بھی جاگتا رہ اور مجھ کو بھی جگاتا رہ
نہیں تو زندگی کو دوسرا قصہ پکڑ لے گا
غزل
دلاسا دے وگرنہ آنکھ کو گریہ پکڑ لے گا
محسن اسرار