دلا معشوق جو ہوتا ہے وہ سفاک ہوتا ہے
بڑا بے رحم ہوتا ہے بڑا بے باک ہوتا ہے
خوشی ہوگی ہلاک اپنا دل صد چاک ہوتا ہے
کہاں اب آرزو گھر حسرتوں کا خاک ہوتا ہے
تمہاری تیغ مجھ سے چپکے چپکے کہتی جاتی ہے
مبارک ہو کہ یہ سر زینت فتراک ہوتا ہے
تجھے اللہ نے بخشا ہے کیسا رتبۂ عالی
کہ تیرا نقش پا تاج سر افلاک ہوتا ہے
قریب آیا ہے وقت اے جان جاں اب دم نکلنے کا
ترے کوچے سے ہم اٹھتے ہیں جھگڑا پاک ہوتا ہے
جو پیتے ہیں شراب ان کی محبت میں نہیں عاصی
یہ تر دامن وہی ہیں جن کا دامن پاک ہوتا ہے
خیال آتا ہے بدنامی کا عاشق قتل ہوتے ہیں
کہ معشوقوں کو نام عاشقی سے پاک ہوتا ہے
اثر سے میری وحشت کے کوئی جامہ نہیں ثابت
میں سنتا ہوں گریباں ہر کفن کا چاک ہوتا ہے
میں کہہ دیتا ہوں ہو آ کر زلف کے کوچے میں دم بھر کو
کسی دن جب بہت مضطر دل غم ناک ہوتا ہے
پہنچ جائے حقیقت تک تری یہ غیر ممکن ہے
بہت گو تجھ سے واقف صاحب ادراک ہوتا ہے
رشیدؔ زار کیوں خوش خوش نہ جائے قبر کی جانب
میسر آج دیدار شہ لولاک ہوتا ہے
غزل
دلا معشوق جو ہوتا ہے وہ سفاک ہوتا ہے
رشید لکھنوی