دل زباں ذہن مرے آج سنورنا چاہیں
سب کے سب صرف تری بات ہی کرنا چاہیں
داغ ہیں ہم ترے دامن کے سو ضدی بھی ہیں
ہم کوئی رنگ نہیں ہیں کہ اترنا چاہیں
آرزو ہے ہمیں صحرا کی سو ہیں بھی سیراب
خشک ہو جائیں ہم اک پل میں جو جھرنا چاہیں
یہ بدن ہے ترا یہ عام سا رستہ تو نہیں
اس کے ہر موڑ پہ ہم صدیوں ٹھہرنا چاہیں
یہ سحر ہے تو بھلا چاہیئے کس کو یہ کہ ہم
شب کی دیوار سے سر پھوڑ کے مرنا چاہیں
جیسے سوئے ہوئے پانی میں اترتا ہے سانپ
ہم بھی چپ چاپ ترے دل میں اترنا چاہیں
عام سے شخص کے لگتے ہیں یوں تو تیرے پاؤں
سارے دریا ہی جنہیں چھو کے گزرنا چاہیں
چاہتے ہیں کہ کبھی ذکر ہمارا وہ کریں
ہم بھی بہتے ہوئے پانی پہ ٹھہرنا چاہیں
نام آیا ہے ترا جب سے گنہ گاروں میں
سب گواہ اپنی گواہی سے مکرنا چاہیں
وصل اور ہجر کے دریا میں وہی اتریں جو
اس طرف ڈوب کے اس اور ابھرنا چاہیں
کوئی آئے گا نہیں ٹکڑے ہمارے چننے
ہم اسی جسم کے اندر ہی بکھرنا چاہیں
غزل
دل زباں ذہن مرے آج سنورنا چاہیں
سوپنل تیواری