دل یہ خاموش تھا ہم زباں مل گئے
سب کہاں سے چلے تھے کہاں مل گئے
جو اطاعت پذیری ہوئی ضابطہ
پھول صحرا کے بھی درمیاں مل گئے
نقص غیروں کے جن کی مذمت تھی کی
وہ تو میرے ہی اندر نہاں مل گئے
سر جھکایا ہی تھا انکساری میں جو
مجھ کو قدموں کے تیرے نشاں مل گئے
اک بشر نہ ملا جو چلے ساتھ میں
پھر جو ملنے لگے کارواں مل گئے
پیاس ایسی کہ پیاسی کی پیاسی رہی
اس زمیں کو بہت آسماں مل گئے
سب عیاں ہو گیا جو کہا بھی نہ تھا
مجھ کو ایسے بھی کچھ رازداں مل گئے
رو بہ رو جب وہ بچھڑے تو غمگین تھے
خواب میں جو ملے شادماں مل گئے
آتش ہجر میں دل سلگتا رہا
رخ پہ کتنے ہی دریا رواں مل گئے
غزل
دل یہ خاموش تھا ہم زباں مل گئے
دناکشی سحر