دل یہ کہتا ہے کہ اک عالم مضطر دیکھوں
بارش سنگ میں لوگوں کو کھلے سر دیکھوں
پھر وہ موسی کا عصا نیل کا شق ہو جانا
فوج فرعون کا میں ڈوبتا منظر دیکھوں
آئنے توڑ کے دوڑوں میں کسی جنگل کو
اپنی صورت کو کسی جھیل کے اندر دیکھوں
میرا سب لے لو مجھے ایک محبت دے دو
شہر میں ایسی بھی آواز لگا کر دیکھوں
جانتا ہوں کہ چھپا ہے وہ کہیں سینے میں
کاش اس درد کی صورت کو میں باہر دیکھوں
اس نے اک روز محبت سے بلایا تھا مجھے
میں تو ہر روز اسے اپنے برابر دیکھوں
دور تک ایک ہی منظر ہے مکانوں کا ظہیرؔ
کس طرف جاؤں میں کس اور مرا گھر دیکھوں
غزل
دل یہ کہتا ہے کہ اک عالم مضطر دیکھوں
علی ظہیر لکھنوی