EN हिंदी
دل یہی سوچ کے بیتاب ہوا جاتا ہے | شیح شیری
dil yahi soch ke betab hua jata hai

غزل

دل یہی سوچ کے بیتاب ہوا جاتا ہے

انو بھو گپتا

;

دل یہی سوچ کے بیتاب ہوا جاتا ہے
در بدر میرا ہر اک خواب ہوا جاتا ہے

رات دن درد کے آغوش میں جلتی سانسیں
اب لہو جسم کا تیزاب ہوا جاتا ہے

بہتے رہتے ہیں ان آنکھوں سے مسلسل آنسو
شہر دل وادئ بے آب ہوا جاتا ہے

جب بھی پڑتی ہے کھلی دھوپ زمیں پر اس کی
اس کا چہرہ کوئی مہتاب ہوا جاتا ہے

تیری یادوں کی مہک اور یہ ہلکی رم جھم
آج بستر بھی تو کم خواب ہوا جاتا ہے

جانے کیا بات ہے جو آپ کی قربت پا کر
آم انسان بھی نایاب ہوا جاتا ہے

بزم میں آپ کے آنے کی کھبر سن سن کر
دل میرا خطۂ شاداب ہوا جاتا ہے

کیا کروں اب میں زمانہ سے محبت کر کے
یہ سمندر بھی تو پایاب ہوا جاتا ہے

کیا کہوں آئے دنوں گاؤں میرا فیشن میں
کبھی دلی کبھی پنجاب ہوا جاتا ہے