دل اسے دے دیا سخیؔ ہی تو ہے
مرحبا پرورش علی ہی تو ہے
دل دیا ہے دلاوری ہی تو ہے
جان بھی اس کو دیں گے جی ہی تو ہے
کیوں حسینوں کی آنکھ سے نہ لڑے
میری پتلی کی مردمی ہی تو ہے
نہ ہوئی ہم سے عمر بھر سیدھی
ابروئے یار کی کجی ہی تو ہے
عارض اس کا نہ دیکھوں مر جاؤں
زندگی میری عارضی ہی تو ہے
نہ ہنسے وہ نہ گل دہن کا کھلا
ابھی نام خدا کلی ہی تو ہے
کی خطابت کو گر خدا سمجھا
بندہ بھی آخر آدمی ہی تو ہے
گال میں واں ہوا کے صدمہ سے
پڑ گیا نیل نازکی ہی تو ہے
آج کیوں چونک چونک پڑتے ہو
اس مکاں میں فقط سخیؔ ہی تو ہے
غزل
دل اسے دے دیا سخیؔ ہی تو ہے
سخی لکھنوی