دل انہیں روئے جو سیل تیرگی میں گم ہوئے
یا انہیں جو آپ اپنی روشنی میں جل بجھے
حسن ہو جاتا ہے جس لمحے ضرورت کا اسیر
ایک ہو جاتے ہیں اس دم خیر و شر کے دائرے
سب ہوا کے رخ پر اڑتے برگ کے ہیں ہم نوا
کون لے اس کی خبر رہتا ہے جو پتھر تلے
روشنی درکار ہے تو خود ہی روزن وا کرو
منتظر کب تک رہو گے تم ہوائے تیز کے
کوئی تو ہوتا جو خون فن کی قیمت جانتا
دوست ناشر سے تو اب تک عذر نامے ہی ملے
غزل
دل انہیں روئے جو سیل تیرگی میں گم ہوئے
ادیب سہیل