دل ان کا ہے کچھ اور تو ہے ان کی زباں اور
کرتا ہوں یقیں جتنا میں بڑھتا ہے گماں اور
منزل کا جنوں ہے تو ہر اک گام ہے منزل
مٹتا ہے نشاں اس کا تو ملتا ہے نشاں اور
پروانے کے ماتم میں بجھی شمع یہ کہہ کر
تیرے لیے حاضر ہے یہ تھوڑا سا دھواں اور
پر درد جو دل ہیں انہیں روکو نہ فغاں سے
ہوتے ہیں یہ خاموش تو کرتے ہیں فغاں اور
یا رب یہ سنا ہے وہ سمجھتے نہیں اردو
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ہوتا ہے فزوں یاس میں سوز غم الفت
بجھتا ہے تو ہوتا ہے یہ دل شعلہ فشاں اور
اپنوں ہی سے تم عشق میں گھبرا گئے صاحب
اس راہ میں حائل ہیں ابھی سنگ گراں اور
دنیا میں تو ممنوع ہے جنت میں ہے جائز
کیا بات ہے واعظ کی یہاں اور وہاں اور
ہوتی ہے زباں بند تو کیا کچھ نہیں کہتی
رکتی ہے یہ تلوار تو ہوتی ہے رواں اور
اصنام تراشی بھی بڑی چیز ہے لیکن
ہے نازکیٔ کارگہہ شیشہ گراں اور
کہنے کو تو اے عرشؔ سخن سنج ہیں ہم بھی
حق یہ ہے کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
غزل
دل ان کا ہے کچھ اور تو ہے ان کی زباں اور
عرش ملسیانی