دل ٹوٹنے کا بند یہ رنج و ملال کر
اب پھینکنا یہ کانچ کہاں ہے خیال کر
مصروف ڈھونڈنے میں ہے کوئی شکار کو
بیٹھا ہے کوئی اپنا یہاں جال ڈال کر
جس آدمی کو زہر بھی پچتا تھا اے طبیب
پینے لگا ہے آج وہ پانی ابال کر
ناسور ہو گیا تھا یہ ناقابل رفو
دل پھینکنا پڑا ہمیں آخر نکال کر
ایمان کو بھی اپنے جہاں سے بچایئے
لاکر میں مال و زر ہی نہ رکھئے سنبھال کر
گر پوچھنا ہی ہے تو زمانہ کا حال پوچھ
بارے پڑوسیوں کے نہ ہم سے سوال کر
جانبؔ نصیب والے تو چاہیں گے بس یہی
ہو فیصلے جہان میں سکے اچھال کر
غزل
دل ٹوٹنے کا بند یہ رنج و ملال کر
مہیش جانب