EN हिंदी
دل تجھے پا کے بھی تنہا ہوتا | شیح شیری
dil tujhe pa ke bhi tanha hota

غزل

دل تجھے پا کے بھی تنہا ہوتا

احمد ہمدانی

;

دل تجھے پا کے بھی تنہا ہوتا
دور تک ہجر کا سایا ہوتا

اور تو اپنے لیے کیا ہوتا
اپنا دکھ ہی کوئی اپنا ہوتا

آپ آتے کہ نہ آتے دل میں
جلتا بجھتا کوئی شعلہ ہوتا

آرزو پھر نئی کرتے تعبیر
پھر نیا کوئی تماشا ہوتا

پھر وہی ایک خلش سی ہوتی
پھر کسی نے ہمیں دیکھا ہوتا

زخم پھر کوئی مہکتا دل میں
سامنے پھر کوئی چہرہ ہوتا

پھر گلے وحشتیں ملتیں ہم سے
پھر وہی ہم وہی صحرا ہوتا

تھے خفا تم تو ہمارا دم ساز
آفت جاں کوئی تم سا ہوتا

تجھ کو نفرت ہے تو اپنا دل بھی
رفتہ رفتہ تجھے بھولا ہوتا

تھک کے سویا ہے جو اب رات گئے
شام ہوتے اسے دیکھا ہوتا