EN हिंदी
دل ٹھہرا ایک تبسم پر کچھ اور بہا اے جان نہیں | شیح شیری
dil Thahra ek tabassum par kuchh aur baha ai jaan nahin

غزل

دل ٹھہرا ایک تبسم پر کچھ اور بہا اے جان نہیں

نظیر اکبرآبادی

;

دل ٹھہرا ایک تبسم پر کچھ اور بہا اے جان نہیں
گر ہنس دیجے اور لے لیجے تو فائدہ ہے نقصان نہیں

یہ ناز ہے یا استغنا ہے یا طرز تغافل ہے یارو
جو لاکھ کوئی تڑپے سسکے فریاد کرے کچھ دھیان نہیں

جب سنتا ہے احوال مرا یوں کہتا ہے عیاری سے
ہے کون وہ اس سے ہم کو تو کچھ جان نہیں پہچان نہیں

کچھ بن نہیں آتا کیا کیجے کس طور سے ملیے اے ہمدم
وہ دیکھ ہمیں رک جاتا ہے اور ہم کو چین اک آن نہیں

تر دیکھ کے میری آنکھوں کو یہ بات سناتا ہے ہنس کر
ہیں کہتے جس کو چاہ میاں وہ مشکل ہے آسان نہیں

دل پھنس کر اس کی زلفوں میں تدبیر رہائی کی مت کر
کب چھوٹا اس کے دام سے تو وہ دانا ہے نادان نہیں