دل تیری نظر کی شہہ پا کر ملنے کے بہانے ڈھونڈھے ہے
گیتوں کی فضائیں مانگے ہے غزلوں کے زمانے ڈھونڈھے ہے
آنکھوں میں لیے شبنم کی چمک سینہ میں لیے دوری کی کسک
وہ آج ہمارے پاس آ کر کچھ زخم پرانے ڈھونڈھے ہے
کیا بات ہے تیری باتوں کی لہجہ ہے کہ ہے جادو کوئی
ہر آن فضا میں دل اڑ کر تاروں کے خزانے ڈھونڈھے ہے
پہلے تو چھٹے یہ دیر و حرم پھر گھر چھوٹا پھر مے خانہ
اب تاجؔ تمہاری گلیوں میں رونے کے ٹھکانے ڈھونڈھے ہے
غزل
دل تیری نظر کی شہہ پا کر ملنے کے بہانے ڈھونڈھے ہے
تاج بھوپالی