دل تمام آئینے تیرہ کون روشن کون
اب یہ آنکھ ہی جانے دوستوں میں دشمن کون
یا جگر میں خوں کم تھا یا ابھی جنوں کم تھا
دشت کے عوض کرتا ورنہ قصد گلشن کون
اک نشاط آرائی اک سکون تنہائی
ہجر یا وصال اچھا حل کرے یہ الجھن کون
سلسلے محبت کے نام سے نہیں چلتے
اپنی ذات جو تج دے شیخ کیا برہمن کون
اک نئی لگن بخشے اک فقط تھکن بخشے
مردم آزما نکلا رہنما کہ رہزن کون
عشق بے خبر گزرے خیر و شر کے عقدوں سے
آرزو کی سیتا کو رام کون راون کون
خامۂ سخنور یا جذب اندرون گوہرؔ
فن کے سر پہ رکھتا ہے تاج عظمت فن کون

غزل
دل تمام آئینے تیرہ کون روشن کون
گوہر ہوشیارپوری