دل تک لرز اٹھا ہے ترے التفات پر
اب التفات ہے بھی تو تہمت حیات پر
لکھیے تو لکھتے رہیے کتابیں تمام عمر
وہ تبصرے ہوئے ہیں مری بات بات پر
تاریک ہو نہ جائے کہیں محفل حیات
اب آندھیوں کا زور ہے شمع حیات پر
دیکھے ہوئے سے خواب ہیں چونکیں بھی کس لئے
کچھ مسکرا تو لیتے ہیں ہم حادثات پر
ہر ہر قدم چراغ کہاں تک جلاؤ گے
تاریکیاں تو دن کی بھی وارد ہیں رات پر
دھارا تو واقعات کا محشرؔ مڑے گا کیا
بہتر یہ ہے کہ نقد کرو واقعات پر
غزل
دل تک لرز اٹھا ہے ترے التفات پر
محشر عنایتی