EN हिंदी
دل سویا ہوا تھا مدت سے یہ کیسی بشارت جاگی ہے | شیح شیری
dil soya hua tha muddat se ye kaisi bashaarat jagi hai

غزل

دل سویا ہوا تھا مدت سے یہ کیسی بشارت جاگی ہے

عزم بہزاد

;

دل سویا ہوا تھا مدت سے یہ کیسی بشارت جاگی ہے
اس بار لہو میں خواب نہیں تعبیر کی لذت جاتی ہے

اس بار نظر کے آنگن میں جو پھول کھلا خوش رنگ لگا
اس بار بصارت کے دل میں نادیدہ بصیرت جاگی ہے

اک بام سخن پر ہم نے بھی کچھ کہنے کی خواہش کی تھی
اک عمر کے بعد ہمارے لیے اب جا کے سماعت جاگی ہے

اک دست دعا کی نرمی سے اک چشم طلب کی سرخی تک
احوال برابر ہونے میں اک نسل کی وحشت جاگی ہے

اے طعنہ زنو دو چار برس تم بول لیے اب دیکھتے جاؤ
شمشیر سخن کس ہاتھ میں ہے کس خون میں حدت جاگی ہے