دل شکستہ ہوئے ٹوٹا ہوا پیمان بنے
ہم وہی ہیں جو تمہیں دیکھ کے انجان بنے
چند یادیں مری زنجیر شب و روز بنیں
چند لمحے مرے کھوئے ہوئے اوسان بنے
وہ بھی کیا فصل تھی کیا شعلۂ خرمن تھا بلند
وہ بھی کیا دن تھے کہ دامن سے گریبان بنے
ان کی دوری کا بھی احساں ہے مری سانسوں پر
مجھ سے اس طرح وہ بچھڑے کہ نگہبان بنے
اہل ساحل سے ندامت سی ندامت ہے کہ ہم
ایک کشتیٔ تہہ آب کا سامان بنے
ہائے کیا آس تھی کیا کیا نہ تمہیں بننا تھا
تم بنے بھی تو مرے درد کی پہچان بنے
گھر سجانا تو کجا شاذؔ لٹا بھی نہ سکوں
ان سے شکوہ ہے کہ وہ کیوں مرے مہمان بنے

غزل
دل شکستہ ہوئے ٹوٹا ہوا پیمان بنے
شاذ تمکنت