EN हिंदी
دل شب فرقت سکوں کی جستجو کرتا رہا | شیح شیری
dil shab-e-furqat sukun ki justuju karta raha

غزل

دل شب فرقت سکوں کی جستجو کرتا رہا

ناز مرادآبادی

;

دل شب فرقت سکوں کی جستجو کرتا رہا
رات بھر دیوار و در سے گفتگو کرتا رہا

جو بہاروں کی چمن میں آرزو کرتا رہا
نذر رنگ و بو خود اپنا ہی لہو کرتا رہا

اپنی نظروں کو خراب جستجو کرتا رہا
جو مسلسل امتیاز رنگ و بو کرتا رہا

شیشۂ دل جو نزاکت میں گہر سے کم نہیں
عشق میں کیسے ستم سہنے کی خو کرتا رہا

عاشقی میں اس کی ناکامی بھی ناکامی نہیں
جو فنا ہو کر بھی تیری جستجو کرتا رہا

تیری چشم مست سے پینے کے جو قابل نہ تھا
میکدے میں خواہش جام و سبو کرتا رہا

سوچنا یہ ہے کہ اس کے خون دل کو کیا ہوا
جو قفس میں آرزوئے رنگ و بو کرتا رہا

دل نے جوش شوق میں کتنے ہی سجدے کر لئے
دیدۂ تر خون دل سے ہی وضو کرتا رہا

جس نے پیہم کوششیں کیں امن عالم کے لئے
وہ خود اپنے ہی چمن کو سرخ رو کرتا رہا

وہ ستم ڈھاتے رہے ہر دل پہ اور ہر زخم دل
شکوۂ بیداد انہیں کے روبرو کرتا رہا

ایسے دیوانے کو کیا چاک گریباں کی ہو قدر
عمر بھر جو چاک دامن ہی رفو کرتا رہا

سارے عالم کو رہی اے نازؔ اس کی جستجو
اپنے جلووں کو عیاں وہ کو بہ کو کرتا رہا