دل شادماں ہو خلد کی بھی آرزو نہ ہو
گر تو ملے خدا کی مجھے جستجو نہ ہو
آنکھیں تجھے نہ پائیں تو کچھ بھی نہ پا سکیں
گر تو نہ ہو تو کچھ بھی مرے روبرو نہ ہو
چبھتی ہوئی کہے ہے زباں سے ہر ایک بات
تو خوب ہے جو تلخ تری گفتگو نہ ہو
اٹھتی نہیں نگاہ بھی اے دل ترے سبب
کس سے مجھے شکست ہو دشمن جو تو نہ ہو
محبوب گر ملے تو ملے وہ نصیب سے
لطف و کرم نہ ہو تو ستم کی بھی خو نہ ہو
ہر خوبرو ہو شوخ ادا اور وفا شعار
کس کام کا ہے پھول اگر رنگ و بو نہ ہو
عزت بھی ایک چیز ہے دنیا میں اے فلکؔ
اس گھر نہ جا جہاں کہ تری آبرو نہ ہو

غزل
دل شادماں ہو خلد کی بھی آرزو نہ ہو
ہیرا لال فلک دہلوی