دل سے نہ وہی اور ہیں منظرؔ نہ ہمیں اور
یہ وقت ہے جو ہم ہیں کہیں اور وہ کہیں اور
ہنس کر نہیں اب روٹھ کے اک بار نہیں اور
غصہ کرو غصہ کرو بن جاؤ حسیں اور
سب وہم تھا دنیا تھی فلک تھا نہ زمیں اور
جب آئینہ دیکھا تو نظر آئے ہمیں اور ہمیں اور
میرا تو سلام اس کو بہار در جاناں
تجھ سے اگر اچھی کوئی جنت ہے کہیں اور
اقرار سے انکار کے انداز ہیں دل کش
تم یوں ہی کہے جاؤ نہیں اور نہیں اور
وعدوں میں ترے ہو رہی ہے جتنی بھی تاخیر
ہوتا چلا جاتا ہے مجھے اتنا یقیں اور
مالک مجھے رسوائی محشر سے بچا لے
دینا ہوں جو دے لے وہ سزائیں بھی یہیں اور
ٹوٹے نہ مگر سلسلۂ دور محبت
مجھ کو نہ پلاؤ تو پئے جاؤ تمہیں اور
اے لکھنؤ کے پھولو نہ منظرؔ کو ستاؤ
گھبرا کے چلا جائے نہ بے چارہ کہیں اور
غزل
دل سے نہ وہی اور ہیں منظرؔ نہ ہمیں اور
منظر لکھنوی