EN हिंदी
دل سے اک یاد بھلا دی گئی ہے | شیح شیری
dil se ek yaad bhula di gai hai

غزل

دل سے اک یاد بھلا دی گئی ہے

ندیم بھابھہ

;

دل سے اک یاد بھلا دی گئی ہے
کسی غفلت کی سزا دی گئی ہے

میں نے منزل کی دعا مانگی تھی
میری رفتار بڑھا دی گئی ہے

عیب دیوار کے ہوں گے ظاہر
میری تصویر ہٹا دی گئی ہے

میں نے اک دل پہ حکومت کیا کی
مجھے تلوار تھما دی گئی ہے

اب محبت کا سبب ہے وحشت
ورنہ حسرت تو مٹا دی گئی ہے

اب یہاں سے نہیں جا سکتا کوئی
اب یہاں شمع جلا دی گئی ہے

اس لئے جم کے یہاں بیٹھا ہوں
مجھ کو میری ہی جگہ دی گئی ہے