دل سے حصول زر کے سبھی زعم ہٹ گئے
فکر معاش بڑھ گئی خانوں میں بٹ گئے
پھر یوں ہوا کہ مجھ سے وہ یونہی بچھڑ گیا
پھر یوں ہوا کہ زیست کے دن یونہی کٹ گئے
کھینا سکھی سکھی نہ سجن کی طرف مجھے
لینا سکھی سکھی مرے پاؤں رپٹ گئے
آئینہ اس کو دیکھ کے مبہوت ہو گیا
گلدان میں گلاب لجا کر سمٹ گئے
اخروٹ کھائیں تاپیں انگیٹھی پہ آگ آ
رستے تمام گاؤں کے کہرے سے اٹ گئے
آنے دیا نہ میرے بزرگوں نے حق پہ حرف
میدان کربلاؤں کے لاشوں سے پٹ گئے
ڈالی ندی میں ناؤ نہ برگد کے نیچے پینگ
تو کیا گیا پلٹ کے وہ سب دن پلٹ گئے
کھادیں لگیں تو چھوڑ گئیں کھیت تتلیاں
فصلیں بڑھیں تو ڈار پرندوں کے گھٹ گئے
اس سے ملی نظر تو لرزنے لگا بدن
دیدے سکھی ری دیکھ کے پریتم کو پھٹ گئے
تو شانت ہو کہ تیری مرادیں ہوئیں سپھل
بادل گرج برج کے جو آئے تھے چھٹ گئے
دیکھا تو اس کے تن پہ گرے کیوڑے کے پھول
پاؤں سے آبشار کے پانی لپٹ گئے
غزل
دل سے حصول زر کے سبھی زعم ہٹ گئے
ناصر شہزاد