دل سے باہر ہیں خریدار ابھی
سامنے ہے بھرا بازار ابھی
آدمی ساتھ نہیں دے سکتا
تیز ہے سائے کی رفتار ابھی
یہ کڑی دھوپ یہ رنگوں کی پھوار
ہے ترا شہر پر اسرار ابھی
دل کو یوں تھام رکھا ہے جیسے
بیٹھ جائے گی یہ دیوار ابھی
آنچ آتی ہے صبا سے باقیؔ
کیا کوئی گل ہے شرربار ابھی
غزل
دل سے باہر ہیں خریدار ابھی
باقی صدیقی