EN हिंदी
دل سرد ہو گیا ہے طبیعت بجھی ہوئی | شیح شیری
dil sard ho gaya hai tabiat bujhi hui

غزل

دل سرد ہو گیا ہے طبیعت بجھی ہوئی

آغا شاعر قزلباش

;

دل سرد ہو گیا ہے طبیعت بجھی ہوئی
اب کیا ہے وہ اتر گئی ندی چڑھی ہوئی

تم جان دے کے لیتے ہو یہ بھی نئی ہوئی
لیتے نہیں سخی تو کوئی چیز دی ہوئی

اس ٹوٹے پھوٹے دل کو نہ چھیڑو پرے ہٹو
کیا کر رہے ہو آگ ہے اس میں دبی ہوئی

لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

خوں ریز جس قدر ہیں وہ رہتے ہیں سرنگوں
خنجر ہوا کٹار ہوئی یا چھری ہوئی

شاعرؔ خدا کے واسطے توبہ کا کیا قصور
ہے کس کے منہ سے پھر یہ صبوحی لگی ہوئی