دل سرد ہو گیا ہے طبیعت بجھی ہوئی
اب کیا ہے وہ اتر گئی ندی چڑھی ہوئی
تم جان دے کے لیتے ہو یہ بھی نئی ہوئی
لیتے نہیں سخی تو کوئی چیز دی ہوئی
اس ٹوٹے پھوٹے دل کو نہ چھیڑو پرے ہٹو
کیا کر رہے ہو آگ ہے اس میں دبی ہوئی
لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی
خوں ریز جس قدر ہیں وہ رہتے ہیں سرنگوں
خنجر ہوا کٹار ہوئی یا چھری ہوئی
شاعرؔ خدا کے واسطے توبہ کا کیا قصور
ہے کس کے منہ سے پھر یہ صبوحی لگی ہوئی
غزل
دل سرد ہو گیا ہے طبیعت بجھی ہوئی
آغا شاعر قزلباش