EN हिंदी
دل ربا پہلو سے اب اٹھ کر جدا ہونے کو ہے | شیح شیری
dil-ruba pahlu se ab uTh kar juda hone ko hai

غزل

دل ربا پہلو سے اب اٹھ کر جدا ہونے کو ہے

خواجہ عزیز الحسن مجذوب

;

دل ربا پہلو سے اب اٹھ کر جدا ہونے کو ہے
کیا غضب ہے کیا قیامت ہے یہ کیا ہونے کو ہے

دشمنیٔ خلق میری رہنما ہونے کو ہے
اب مرا دست طلب دست دعا ہونے کو ہے

تو نے چاہا تھا برا میرا بھلا ہونے کو ہے
آب خنجر حلق میں آب بقا ہونے کو ہے

آج تو جی بھر کے پی لینے دے اے ساقی مجھے
جان ہی جاتی رہے گی اور کیا ہونے کو ہے

اے دل پر آرزو کر دے سر تسلیم خم
دیکھ کن ہاتھوں سے خون مدعا ہونے کو ہے

شوخ رفتاری کا اپنی دیکھ تو مڑ کر اثر
ساتھ ساتھ اٹھ کر رواں ہر نقش پا ہونے کو ہے