EN हिंदी
دل پھر اوس کوچے میں جانے والا ہے | شیح شیری
dil phir us kuche mein jaane wala hai

غزل

دل پھر اوس کوچے میں جانے والا ہے

زبیر علی تابش

;

دل پھر اس کوچے میں جانے والا ہے
بیٹھے بٹھائے ٹھوکر کھانے والا ہے

ترک تعلق کا دھڑکا سا ہے دل کو
وہ مجھ کو اک بات بتانے والا ہے

کتنے ادب سے بیٹھے ہیں سوکھے پودے
جیسے بادل شعر سنانے والا ہے

یہ مت سوچ سرائے پر کیا بیتے گی
تو تو بس اک رات بتانے والا ہے

اینٹوں کو آپس میں ملانے والا شخص
اصل میں اک دیوار اٹھانے والا ہے

گاڑی کی رفتار میں آئی ہے سستی
شاید اب اسٹیشن آنے والا ہے

آخری ہچکی لینی ہے اب آ جاؤ
بعد میں تم کو کون بلانے والا ہے