EN हिंदी
دل پہ یادوں کا بوجھ طاری ہے | شیح شیری
dil pe yaadon ka bojh tari hai

غزل

دل پہ یادوں کا بوجھ طاری ہے

اطیب اعجاز

;

دل پہ یادوں کا بوجھ طاری ہے
آج کی رات کتنی بھاری ہے

قید کی طرح کاٹتے ہیں سب
کس نے یہ زندگی گزاری ہے

سر چھپا کر ترے دوپٹے میں
خوشبوؤں نے تھکن اتاری ہے

ایسی بھینی مہک ہے باتوں میں
جیسے تازہ گلوں کی کیاری ہے

دل لگی لمحہ بھر کی ہے لیکن
زندگی بھر کی بے قراری ہے

زلف و رخسار کی ضیا لے کر
ہم نے اپنی غزل سنواری ہے

چاہ پر کس کا زور ہے اے اطیبؔ
چاہ تو غیر اختیاری ہے