EN हिंदी
دل پر وفا کا بوجھ اٹھاتے رہے ہیں ہم | شیح شیری
dil par wafa ka bojh uThate rahe hain hum

غزل

دل پر وفا کا بوجھ اٹھاتے رہے ہیں ہم

شہاب جعفری

;

دل پر وفا کا بوجھ اٹھاتے رہے ہیں ہم
اپنا ہر امتیاز مٹاتے رہے ہیں ہم

منہ پر جو یہ جلے ہوئے دامن کی راکھ ہے
شعلوں میں زندگی کے نہاتے رہے ہیں ہم

اتنا نہ کھل سکا کہ ہوا کس طرف کی ہے
سارے جہاں کی خاک اڑاتے رہے ہیں ہم

آنکھوں سے دل تک ایک جہان سکوت ہے
سنتے ہیں اس دیار سے جاتے رہے ہیں ہم

تیرا خیال مانع عرض ہنر ہوا
کس کس طرح سے جی کو جلاتے رہے ہیں ہم

کس کی صدا سنی تھی کہ چپ لگ گئی شہابؔ
ساتوں سروں کا بھید گنواتے رہے ہیں ہم