دل و دلبر سہی اب خواب سے بیدار ہیں دونوں
شریک مجلس آرائش گفتار ہیں دونوں
چمن میں کیا ہوا گلچیں ہو باگلکار کیا جانے
نظر آتا نہیں کچھ نرگس بیمار ہیں دونوں
نگاہ اہل دنیا ہو کہ چشم نیم خواب ان کی
کبھی اقرار ہیں دونوں کبھی انکار ہیں دونوں
عبادت خانہ ہائے کفر و ایماں میں گیا لیکن
ندا آئی کہ واپس جا یہاں غدار ہیں دونوں
جدھر دولت کی کرنیں ہیں ادھر جاتا نہیں کوئی
وہ عاشق ہو کہ شاعر سایۂ دیوار ہیں دونوں
درون حلقۂ گنگ و جمن ہے شعر کی دنیا
یہ دلی لکھنؤ بھی کچھ نہیں اس پار ہیں دونوں
تغافل کی ادا ہو یا حکومت کی اداکاری
برا کس کو کہوں میرے لیے سرکار ہیں دونوں

غزل
دل و دلبر سہی اب خواب سے بیدار ہیں دونوں
نشور واحدی