دل نہ لو دل کا یہ لینا ہے نہ اخفا ہوگا
اس کو دل کہتے ہیں بس لیتے ہی چرچا ہوگا
تم کو ہر آن ادھر ہووے گی حسن آرائی
ہم کو ہر لحظہ ادھر ذوق تماشا ہوگا
ہم بھی سو چاہ سے دیکھیں گے تمہاری جانب
تم سے بھی ضبط تبسم نہ پھر اصلا ہوگا
جوں ہی ہم دیکھیں گے تم اور تبسم ہوگے
چاہ کا غنچۂ سربستہ وہیں وا ہوگا
گفتگو ہووے گی باہم جو اشارات کے ساتھ
متن اس کا بھی حریفوں میں محشا ہوگا
پاؤں تک ہاتھ جو لاویں گے کسی عذر سے ہم
تاڑنے والوں میں شور اس کا بھی برپا ہوگا
جب یہ تقریر سنی اس شہ خوباں نے نظیرؔ
ہم سے دل لے لیا اور ہنس کے کہا کیا ہوگا
غزل
دل نہ لو دل کا یہ لینا ہے نہ اخفا ہوگا
نظیر اکبرآبادی