دل مضطرب ہے اور پریشان جسم ہے
اس کے بغیر بے سر و سامان جسم ہے
اب ہو نہیں سکے گا مداوا کسی طرح
وہ جو کہیں نہیں ہے تو بے جان جسم ہے
دل تو جنوں کے کھیل میں مصروف ہے مگر
اس کی نوازشات پہ حیران جسم ہے
میں نے بنا دیا ہے جسے عشق میں غزل
دل اس کا ہے بیاض تو دیوان جسم ہے
اب اس کے غم سے مجھ کو ملے گی کہاں نجات
دل پاسباں ہے اور نگہبان جسم ہے
غزل
دل مضطرب ہے اور پریشان جسم ہے
ذیشان ساحل