EN हिंदी
دل مضطرب ہے اور پریشان جسم ہے | شیح شیری
dil muztarib hai aur pareshan jism hai

غزل

دل مضطرب ہے اور پریشان جسم ہے

ذیشان ساحل

;

دل مضطرب ہے اور پریشان جسم ہے
اس کے بغیر بے سر و سامان جسم ہے

اب ہو نہیں سکے گا مداوا کسی طرح
وہ جو کہیں نہیں ہے تو بے جان جسم ہے

دل تو جنوں کے کھیل میں مصروف ہے مگر
اس کی نوازشات پہ حیران جسم ہے

میں نے بنا دیا ہے جسے عشق میں غزل
دل اس کا ہے بیاض تو دیوان جسم ہے

اب اس کے غم سے مجھ کو ملے گی کہاں نجات
دل پاسباں ہے اور نگہبان جسم ہے