دل مورد الزام وفا اور بھی نکلا
اک غم غم دوراں کے سوا اور بھی نکلا
یوں ہونے کو ہم سے ہے خفا سارا زمانہ
اک شخص مگر ہم سے خفا اور بھی نکلا
ہر چند کہ ہم کردہ خطاؤں پہ تھے نادم
دنیا کو مگر ہم سے گلا اور بھی نکلا
پہلے ہی سے برہم کن محفل تھی طبیعت
ماحول مگر ہم سے خفا اور بھی نکلا
اس بار وہ دیکھیں کرم آمادہ نگاہیں
جز ہجر محبت کا صلہ اور بھی نکلا
لے آئی تھی زنداں میں شہیدوں کی محبت
لیکن سبب جرم و سزا اور بھی نکلا
ہم وہ کہ جو راضی بہ رضا ہو نہیں سکتے
ہر حکم پہ ہونٹوں سے گلا اور بھی نکلا

غزل
دل مورد الزام وفا اور بھی نکلا
کرار نوری