EN हिंदी
دل منافق تھا شب ہجر میں سویا کیسا | شیح شیری
dil munafiq tha shab-e-hijr mein soya kaisa

غزل

دل منافق تھا شب ہجر میں سویا کیسا

احمد فراز

;

دل منافق تھا شب ہجر میں سویا کیسا
اور جب تجھ سے ملا ٹوٹ کے رویا کیسا

زندگی میں بھی غزل ہی کا قرینہ رکھا
خواب در خواب ترے غم کو پرویا کیسا

اب تو چہروں پہ بھی کتبوں کا گماں ہوتا ہے
آنکھیں پتھرائی ہوئی ہیں لب گویا کیسا

دیکھ اب قرب کا موسم بھی نہ سرسبز لگے
ہجر ہی ہجر مراسم میں سمویا کیسا

ایک آنسو تھا کہ دریائے ندامت تھا فرازؔ
دل سے بے باک شناور کو ڈبویا کیسا