EN हिंदी
دل مکدر ہے آئینہ رو کا | شیح شیری
dil mukaddar hai aaina-ru ka

غزل

دل مکدر ہے آئینہ رو کا

آرزو لکھنوی

;

دل مکدر ہے آئینہ رو کا
نہ ملا رنگ سے پتا بو کا

ہے دم صبح وہ خماریں آنکھ
ایک ٹوٹا طلسم جادو کا

کم جو ٹھہرے جفا سے میری وفا
تو یہ پاسنگ ہے ترازو کا

دل کی بے چینیاں خدا کی پناہ
تکیہ ہٹ ہٹ گیا ہے پہلو کا

کہیں جاتی بہار رکتی ہے
دامن آیا نہ ہاتھ میں بو کا

ہے نئی قید اب یہ آزادی
زور ٹوٹا ہوا ہے بازو کا

آندھی آہوں کی سیل اشکوں کی
اب نہیں کوئی اپنے قابو کا

قہقہہ بھرتی ہے صراحی کیا
ظرف خم سے سوا ہے چلو کا

سوتی قسمت کی نیند اڑاوے گا
نرم تکیہ کسی کے زانو کا

عشق بازی ہے جان کی جوکھم
وہیں مارا پڑا جہاں چوکا

آرزوؔ دل ہے وقف بیم و امید
جھلملاتا چراغ جگنو کا