دل مجھے سمجھاتا ہے تو دل کو سمجھاتا ہوں میں
جانے کیسے عقل کی باتوں میں آ جاتا ہوں میں
دن مجھے ہر دن بنا لیتا ہے اپنا یرغمال
رات جب آتی ہے تو خود کو چھڑا لاتا ہوں میں
کوئی جھوٹا وعدہ بھی کرتا نہیں ہے وہ کبھی
خود امیدیں باندھ لیتا ہوں بہل جاتا ہوں میں
زندہ رہنے کا مجھے فن آج تک آیا نہیں
پھر بھی جینا چاہتا ہوں کیا غضب ڈھاتا ہوں میں
ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں کرنی ہے کچھ گفتگو
زندگی اے زندگی تو رک ابھی آتا ہوں میں
میں نے دریا کے حوالے کر دیا ہے تن بدن
موجوں کی رو میں خموشی سے بہا جاتا ہوں میں
اب نہ آئے گا مرے شعروں میں تیرا تذکرہ
اے مری جان غزل تیری قسم کھاتا ہوں میں
شدت غم ہی علاج غم بھی ہوتا ہے کمالؔ
بڑھتی ہیں تاریکیاں تو روشنی پاتا ہوں میں
غزل
دل مجھے سمجھاتا ہے تو دل کو سمجھاتا ہوں میں
احمد کمال حشمی