دل مرا ٹوٹا تو اس کو کچھ ملال آ ہی گیا
اپنے بچپن کے کھلونے کا خیال آ ہی گیا
حشر میں مظلوم سب چپ رہ گئے منہ دیکھ کر
آخر اس ظالم کے کام اس کا جمال آ ہی گیا
ہنس کے بولا جب پھنسا بالوں میں خوں آلودہ دل
جال پھیلایا تھا میں نے اس میں لال آ ہی گیا
چھپ کے گر ماہ صیام آتا تو مے کیوں چھوٹتی
کیا کروں میں سامنے میرے ہلال آ ہی گیا
دل تھا اس کا لیکن اب ہم مر کے دیں گے حور کو
وہ پشیماں ہے کہ وقت انتقال آ ہی گیا
کانپ اٹھے غصے سے وہ سن کر مری فریاد کو
نغمہ ایسا تھا کہ آخر ان کو حال آ ہی گیا
میری نظروں سے کوئی اے شوقؔ سیکھے جذب عشق
بن کے تل آنکھوں میں اس کے رخ کا خال آ ہی گیا
غزل
دل مرا ٹوٹا تو اس کو کچھ ملال آ ہی گیا
شوق قدوائی