دل مرا چیخ رہا تھا شاید
ضبط سے درد سوا تھا شاید
ایک الجھن سی رہی آفس میں
گھر پہ کچھ چھوٹ گیا تھا شاید
دکھتی رگ کو ہی بنایا تھا ہدف
وار اپنوں نے کیا تھا شاید
رخ مرا اس کی طرف رہتا تھا
وہ مرا قبلہ نما تھا شاید
میں نے پوچھا تھا محبت ہے تمہیں
اس نے دھیرے سے کہا تھا شاید
میں نے کچھ اور کہا تھا اعظمؔ
اس نے کچھ اور سنا تھا شاید
غزل
دل مرا چیخ رہا تھا شاید
ڈاکٹر اعظم