دل میرا تیرا تابع فرماں ہے کیا کروں
اب تیرا کفر ہی مرا ایماں ہے کیا کروں
باہوش ہوں مگر مرا دامن ہے چاک چاک
عالم یہ دیکھ دیکھ کے حیراں ہے کیا کروں
ہر طرح کا سکون ہے ہر طرح کا ہے کیف
پھر بھی یہ میرا قلب پریشاں ہے کیا کروں
کہتا نہیں ہوں اور زمانہ ہے با خبر
چہرے سے دل کا حال نمایاں ہے کیا کروں
دامن کروں نہ چاک یہ ممکن تو ہے مگر
مضطر ہر ایک تار گریباں ہے کیا کروں
سادہ سا اک ورق ہوں کتاب حیات کا
حسرت سے اب نہ اب کوئی ارماں ہے کیا کروں
ہر سمت پا رہا ہوں وہی رنگ دل فریب
ہاتھوں میں کفر کے مرا ایماں ہے کیا کروں
داغوں کا قلب زار سے ممکن تو ہے علاج
ان کے ہی دم سے دل میں چراغاں ہے کیا کروں
اک بے وفا کے واسطے سے سب کچھ لٹا دیا
بہزادؔ اب نہ دین نہ ایماں ہے کیا کروں
غزل
دل میرا تیرا تابع فرماں ہے کیا کروں
بہزاد لکھنوی