دل میں یاد بت بے پیر لیے بیٹھا ہوں
یعنی اک ظلم کی تصویر لیے بیٹھا ہوں
آہ میں درد کی تاثیر لیے بیٹھا ہوں
دل میں اک خون بھرا تیر لیے بیٹھا ہوں
اک ذرا سی خلش درد جگر پر یہ گھمنڈ
جیسے کل عشق کی جاگیر لیے بیٹھا ہوں
ہے مجھے ساز طرب سوختہ سامانی دل
پردۂ خاک میں اکسیر لیے بیٹھا ہوں
چور شیشے پہ نظر پڑتے ہی دل یاد آیا
مٹنے والے تری تصویر لیے بیٹھا ہوں
قید کو توڑ کے سمجھا کہ سہارا توڑا
ہاتھ میں پاؤں کی زنجیر لیے بیٹھا ہوں
آرزوؔ ہو چکی سو مرتبہ دنیا بیدار
اور میں سوئی ہوئی تقدیر لیے بیٹھا ہوں
غزل
دل میں یاد بت بے پیر لیے بیٹھا ہوں
آرزو لکھنوی