EN हिंदी
دل میں وفا کی ہے طلب لب پہ سوال بھی نہیں | شیح شیری
dil mein wafa ki hai talab lab pe sawal bhi nahin

غزل

دل میں وفا کی ہے طلب لب پہ سوال بھی نہیں

آصف شفیع

;

دل میں وفا کی ہے طلب لب پہ سوال بھی نہیں
ہم ہیں حصار درد میں اس کو خیال بھی نہیں

وہ جو انا پرست ہے میں بھی وفا پرست ہوں
اس کی مثال بھی نہیں میری مثال بھی نہیں

عہد وصال یار کی تجھ میں نہاں ہیں دھڑکنیں
موجۂ خون احتیاط خود کو اچھال بھی نہیں

تم کو زبان دے چکے دل کا جہان دے چکے
عہد وفا کو توڑ دیں اپنی مجال بھی نہیں

اس سے کہو کہ دو گھڑی ہم سے وہ آ ملے کبھی
مانا یہ ہے محال پر اتنا محال بھی نہیں