دل میں وفا کی ہے طلب لب پہ سوال بھی نہیں
ہم ہیں حصار درد میں اس کو خیال بھی نہیں
وہ جو انا پرست ہے میں بھی وفا پرست ہوں
اس کی مثال بھی نہیں میری مثال بھی نہیں
عہد وصال یار کی تجھ میں نہاں ہیں دھڑکنیں
موجۂ خون احتیاط خود کو اچھال بھی نہیں
تم کو زبان دے چکے دل کا جہان دے چکے
عہد وفا کو توڑ دیں اپنی مجال بھی نہیں
اس سے کہو کہ دو گھڑی ہم سے وہ آ ملے کبھی
مانا یہ ہے محال پر اتنا محال بھی نہیں

غزل
دل میں وفا کی ہے طلب لب پہ سوال بھی نہیں
آصف شفیع