دل میں امنگ آنکھوں میں حسرت لیے پھروں
میں شہر شہر تیری محبت لیے پھروں
رسوائیوں کے خوف سے خاموشیوں کے ساتھ
میں دل میں تیرے پیار کی لذت لیے پھروں
جچتا نہیں ہے کوئی نگاہوں میں ان دنوں
ہر پل ترے خیال کی ندرت لیے پھروں
ابھرے گا تیرے لب سے کبھی حرف دوستی
دل میں اس انتظار کی حسرت لیے پھروں
محورؔ سماعتوں کے ملے بند در مجھے
ہونٹوں پہ اپنے حرف شکایت لیے پھروں
غزل
دل میں امنگ آنکھوں میں حسرت لیے پھروں
محور نوری